اسلام سے پریشانی Problem With Islam

اسلام کے علاوہ ہر مذہب اعتدال پسند ہے کیونکہ دوسرے مذاہب اگر ایک وقت میں کسی عبادت کے   کرنے کا حکم دیتے ہیں تودوسرے وقت میں وہ نائٹ کلب  جانے، لڑکیوں کے ساتھ رقص کرنے اور شراب پینے  پر کوئ پابندی نہیں عائد کرتے، تاہم اسلام  ان برائیوں کے لیے جو لوگوں کے لیے ناگواری کا سبب ہوبمشکل ہی ایسی کوئ لچک رکھتا ہے، اسی لیے شاید اسلام یورپ اور مغربی ثقافت کو ایک آنکھ  نہیں بھاتا ہے  اور اسی لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسلام وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھ پاتا

اسلام سے پریشانی Problem With Islam

اسلام سے پریشانی

ماڈرن دنیا کی رائے میں اسلام کے علاوہ ہر مذہب اعتدال پسند ہے کیونکہ دوسرے مذاہب اگر ایک وقت میں کسی عبادت کے   کرنے کا حکم دیتے ہیں تودوسرے وقت میں وہ نائٹ کلب  جانے، لڑکیوں کے ساتھ رقص کرنے اور شراب پینے  پر کوئ پابندی نہیں عائد کرتے، تاہم اسلام  ان برائیوں کے لیے جو لوگوں کے لیے ناگواری کا سبب ہوبمشکل ہی ایسی کوئ لچک رکھتا ہے، اسی لیے شاید اسلام یورپ اور مغربی ثقافت کو ایک آنکھ  نہیں بھاتا ہے  اور اسی لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسلام وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھ پاتا۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اتنی لچک نہ صرف انحطاط کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے انسان  کسی بھی مسئلے پر کوئی مضبوط موقف رکھنے سے عاجز ہوتاہے ۔
اسلام لو ان ریلیشنشپ کو مسترد کرتا ہے۔ تردید کی وجہ شادی کے بندھن کا وہ  تقدس ہے جو  لو ان ریلیشنشپ  جیسا عارضی رشتہ بلکل عطا نہیں کرتا  ۔
اسکے بر عکس شادی ایک سماجی معاہدہ ہے جو خفیہ طور پر نہیں بلکہ  مہمانوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے اجتماع میں طے کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی بھی آپ کے ایک ساتھ دکہنے پر اعتراض نہ کر سکے اور حمل کے وقت آپ کو گھبرانے اور اسقاط حمل کی  ضرورت نہ پڑے اور نہ ہی اپنے بچے کی پیدائش پر شرم کا احساس ہو۔
اس رشتے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکا لڑکی قانونی طور پر ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کو مستقل طور پر بانٹنے کے پابند نہیں ہیں جو بالآخر بدسلوکی اور استحصال کی وجہ بنتا ہے اور ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سماج پر مذہب کا  خاصا اثر ہے عدالتوں کے علاوہ اسکوسبھی نا پسند کرتےہیں۔ کیونکہ اس رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی حفاظتی آلہ کار بھی موجود نہیں ہے  جیسے نکاح کے معاملے میں ۲ گواہ   جو لو ان ریلیشنشپ کے رشتہ میں کہیں نہیں ہیں۔ لہٰذا کئ بار  اذیت زدہ شخص یا تو قتل یا خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اسلام ا بھی بھی مردوں کے بیچ خاتون نرس یا مرد سیلزمین کے بیچ سیلز وومن وغیرہ ہونے کے بجاۓ عورتوں کو گھر میں رکھنے کی قدیم سوچ کا حامی ہے تاہم اگر وہ صرف لڑکیوں کے درمیان اپنے خوابوں کو شرمندہء تعبیر کرنا چاہے تو ان کی حوصلہ افزائی کا بھی  قائل ہے۔
اسلام عورتوں کو بس اس حد تک خود مختار ہونے سے  روکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور اپنی زندگی میں شوہر کے فرائض سے غافل نہ ہوں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مسلمان مرد ان کے نگراں کی حیثیت سے ذمہ دار ہیں۔ شوہروں پر اپنی بیویوں کا نان و نفقہ فرض ہے خواہ ان کی دولت اور اثاثے کچھ بھی ہوں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بیویوں کو  رزق کی تلاش میں کہیں جانے یا نوکری کرنے کی کوئ ضرورت نہیں حالانکہ بے خطر ماحول میں اس کی مکمل اجازت ہے۔

اسلام اس  ترقی کے بلکل مخالف ہے جس میں مرد کی  دیکھ بھال اور اسکی سرپرستی  سےایک عورت بلکل آزاد ہو جاۓ   سورہ نساء کی آیت نمبر ۲۴ اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہےکہ ''مرد عورتوں کے نگہبان ہیں‘‘۔
اسلام میں خواتین کے لیے دور دراز علاقوں میں اکیلے سفر کرنے کی ا بھی بھی ممانعت ہے  کیونکہ ایک خاتون نسبتاً جرم اور مجرم کا نشانہ بآسانی ہو سکتی ہے جبکہ انکی حفاظت اور وقار ایک مہذب سماج کی سب سے اہم ذمہ داری   ہے۔
ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں سے یہ مذہب کنارہ کشی اختیار کرتا ہے ۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ ایل جی بی ٹی قیو جیسی  ثقافت مرد اور عورت کے فطری رشتہ کی نہ صرف نفی کرتی ہے  بلکہ خدائ اصولوں کی تردید کرتے  ہوۓ آزاد خیالی کے نام پر جنسی اختلافات کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور ہوس کے پجاریوں کی یہ اسکیم بہت تیز رفتاری سے رواج پکڑ رہی ہےجبکہ دوسری طرف۔ نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی نومبر ۲۰۲۳ میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ ان جیسی ثقافتوں کو برابر آگاہ کر رہی ہے جو بتاتی ہے کہ ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست خواتین میں  مخالف جنس کے بلمقابل کینسر کے  امکانات زیادہ  ہے۔
نائٹ کلب، عریانیت اور پیشہ ور کے طور پر اجنبیوں کے سامنے رقص کرنا نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی حرام ہے۔ حیاو پاکدامنی وہ  زیور ہے جو انسان کے حسن کو دو بالا کر دیتا ہے اور جسکی  کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی جسم یا مال کی۔
مخلوط تعلیم جو مرد اور عورت کے فرق کو مٹا نےاور دونوں کو برابر میں کھڑے کرنے کی طرف مثبت قدم مانا جاتا ہے اسلام اسطرح کے اقدامات کو نہیں سراہتا ہے۔  اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ  ایسا راستہ بھی نہ چنے  جو ممکنہ طور پر گناہ کی طرف لے جاۓ۔جیسے  لڑکیوں کے ساتھ گھل مل جانا، بات چیت کرنا اور کھیلنا قربت پیدا کر سکتا ہے جو بالآخر قبل ازنکاح جنسی تعلقات کا باعث بن سکتا ہے جو کہ قطعی طور پر حرام ہے۔
وہ ا بھی بہی لمبی داڑھی رکھنے، کوٹ پینٹ کے بجائے کرتا پاجامہ کا لباس پہننے پر اڑے رہتے ہیں جس سے ان کا ظاہر  مشکوک اور باقی لوگوں سے الگ دکھتا ہے۔ وہ جدید اقدار کو مکمل طور پر ترک کرتے ہوئے اپنی مذہبی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں۔


مذہبی رہنماؤں کا زیادہ زور نئ نسل کو ممنوعہ چیزوں اور شراب جیسی ادویات سے روکنے پر ہوتا ہے  چاہے اس سے ملک کی معیشت کو کتنا ہی مالی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ۔
ایک دوسرے کو کافی عرصہ تک ڈیٹ کرنے کے بجائے اسلام جلدی  شادی کو پسند کرتا ہے کیونکہ یہ عفت و پاکدامنی کو برقرار رکھنے اور زناکاری سے روکنے میں مد دیتی ہے۔

اسلام جمہوریت میں ہر  مرض کا علاج تلاش نہیں کرتا، تمام لوگ بالعموم اور مسلمان خاص طور پر  دم توڑتی جمہوریت کے نتائج سے پریشان  ہیں۔
وہ  اظہارآزادی  کے نام پر کسی بھی یا ہر چیز کو برداشت نہیں کرتے۔ وہ اس حد تک حساس ہوتے ہیں کہ اگر ان کے نبی کا مذاق اڑایا جا رہا ہو   تو وہ دوسروں کی جان   لینے اور اپنی دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
دنیا کا خیال ہے کہ مسلمان وہ "دیمک" ہیں جن کی وجہ سے دنیا بالعموم اور مسلمان خاص طور پر پیچھے ہیں، وہ جدیدیت اور فکری ترقی کے مخالف ہیں۔ مسلمان اس حد تک شدت پسند ہیں کہ  ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں اختلاط کو برداشت نہیں کر سکتے  اور وہ اس حد تک جمود کا شکار ہیں کہ وہ صنف مخالف کےشادی سے پہلے ملنے جلنے کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب دنیا اس قدر آگے بڑھ چکی ہے   کہ اس نے کل کے ناجائز کو بھی جائز کر دیا ہے تو اسلام اور مسلمانوں میں پھر اتنا جمود کیوں   کہ وہ دو مردوں اور دو عورتوں کے درمیان بھی رضامندی سے جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دے سکتا۔
  دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی حکومت  جب ان کے مذہب کے خلاف کوئی قدم ا ٹھاتی ہے صرف یہی لوگ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اورمظاہرہ کرنے کے لیے بڑی تعداد میں سامنے آتے ہیں اورکبھی حکومتیں صرف اسی لیے انھیں باغی یا مزاحمتی قوتیں کہنے کے بجاۓ دہشت گرد کہنے پر مجبور ہوتی ہے ۔
اسلام یورپ اور مغربی ثقافت سے کیسے ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟


شاید، اگر اسلام اور مسلمان یورپ اور مغربی ممالک سے آنے والی ہر  چیز کی نقل کرنا اور ہر اس چیز پر  سر ہلانا شروع کر دیں جو یورپ اور مغربی ممالک کو پسند ہو، اگر اس مذہب کے پیروکار بنیادی عقائد پر قائم رہنے کے  رویے کو  ترک کرکے  بعض اوقات شراب پینا، شادی سے پہلے اپنی پسند کی خواتین کے ساتھ زنا کاری جیسے جدید نظریات کو جگہ دینا  اور ہر مذہب کی عبادت جیسے صبح مسجد، دوپہر کو گرودوارہ، شام کو مندر، ہفتہ کو سناگوگ اور اتوار کو چرچ جانا شروع کردے، ممکنہ طور پر تب ہی اسلام کو یورپ اورمغربی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ سمجھا جا سکتا ہے۔

. لیکن کیا یہ کبھی ممکن ہے؟

Files