اسرائیل فلسطینی بچوں کے قتل پر مجبور کیوں ؟
یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہو سکتی ہیں، تاہم، ان میں سے کچھ اہم کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گیی ہیں: (I).یہودیوں کی فلسطینیوں اور بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کی پانچ وجوہات (II)یہودیوں کی بالادستی کا خاتمہ (III)یہودیوں کو انکی سرزمین سے بے دخل کرنا۔ (IV)-یہودیوں اور مسلمانوں کے مشترکہ قبلہ کی سمت میں تبدیلی (V)یہودیوں کے علاوہ کسی دوسری نسل میں نبی کی پیدائش۔ قرآن کے ذریعے یہودیوں کے جرائم کو بے نقاب کرنا اور انہیں انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دینا۔
اسرائیل فلسطینی بچوں کے قتل پر مجبور کیوں ؟
یہ ایک مسلّم حقیقت ہیں کی یہود اکلوتی ایسی برادری ہیں جسکو قومیت کے نام پر کوئی زمیں نہ مل سکی
بلا شبہ، تاریخی طور پر، یہ سب سے زیادہ سزا یافتہ کمیونٹی بھی ہے۔
یہ واحد برادری تھی جسے اپنی ہی بستی سے بے دخل اور جلاوطن کیا گیا ۔
یقینی طور پر یہود واحد کمیونٹی ہے جس سے ایک خاص مدت تک سب سے زیادہ نفرت کی جاتی رہی
ایسا صرف یہودیوں کے ساتھ ہوا کہ انھیں خانہ بدوشی کی زندگی گزارنی پڑی اور وہ کہیں بھی مستقل اور پرامن طور پر آباد نہیں ہو سکے اور اسی تناظر میں ہمارا "ڈائیاسپورا" جیسی ا صطلاح سے تعارف ہوا۔ جو یہودیوں کے تتر بترہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
سب سے زیادہ مصائب برداشت کرنے کے باوجود وہی طبقہ کیوں آج فلسطینی بچوں، خواتین، ہسپتالوں میں بیمار لوگوں اور یہاں تک کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو مارنے پر تلا ہوا ہے؟۔
یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہو سکتی ہیں، تاہم، ان میں سے کچھ اہم کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گیی ہیں:
.یہودیوں کی فلسطینیوں اور بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کی پانچ وجوہات
(I)یہودیوں کی بالادستی کا خاتمہ
یہودیوں نے خود کوہمیشہ سے اپنے اہل علم اور اہل کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ داؤد، سلیمان، یعقوب اور ابراہیم علیھم السلام کے پیروکار ہونے پر اصرار کیا ہے اور اس بات سے اپنی فوقیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کتاب اور رسول پہلے انکے لیے آۓ اس لیے وہ دوسری قوموں سے افضل ہے اور رہےگے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت اور مدینہ کے لوگوں کا محمد کی قیادت کو قبول کر نے، ان کے اصولوں کو اپنانے اور قدیم طرز زندگی کو ترک کرنے نے نہ صرف یہودیوں کو شدید صدمہ پہنچایا بلکہ محمد کی مقبولیت ہی یہودیوں کی بالادستی کے خاتمہ کی وجہ بنا جسے یہود نہ کل بھولے تہے اور نہ کبھی بھولےگے
(II)یہودیوں کو انکی سرزمین سے بے دخل کرنا۔
ہجرت محمدی کے وقت یہودیوں کے دولت مند اور با اثر قبائل بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنی قینقاع شہر مدینہ کے اطراف میں آباد تھے لیکن ان سب کو سا زش اور محمد کو بار بار دھوکہ دینے کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا گیا اور شہر مدینہ صرف مسلمان اور صرف مسلمانوں کا کا مسکن قرار پایا. جرم اور جرائم چاہے کتنے ہی شدید کیوں نہ ہو اپنے گھروں سے اجاڑ پھینکے جانا کس دانا کے خیال سے اتر سکتا ہے. یہودی یاد رکھتا ہے ۔ ۔
(III) یہودیوں اور مسلمانوں کے مشترکہ قبلہ کی سمت میں تبدیلی
حقیقت یہ ہے کہ ہجرت کے بعد بھی بیت المقدس ایک قبلہ رہا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۱۶ سے ۱۷ ماہ تک نماز پڑھتے ہوئے رخ کیا ہے۔
تاہم، وحی کے بعد مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ یروشلم میں القدس کو چھوڑ کر مکہ کے کعبہ کی طرف منہ کریں۔ اس کے بعد یہودیوں سے وہ وقار چھین گیا جو وہ القدس کی وجہ سے رکھتے تھے۔ یہ نہ صرف ان کے لیے ایک جھٹکا تھا، بلکہ اس تبدیلی رخ نے ان کے زخم میں اور اضافہ کردیا۔
یہودیوں کے غیض وغضب کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے آنے کے بعد آخری مشترکہ چیز جس سے یہودی اپنی بالادستی پر خوش تھے وہ مسلمانوں کا القدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا تھا لیکن وہ بھی اب ماضی بن چکا تھا۔ اگر یروشلم میں القدس مستقل طور پر آج بھی مقام کعبہ ہوتا،یہ شہر مکہ کی طرح نہ صرف زائرین سے بھرا ہوا ہوتا بلکہ اس سے اربوں کی آمدنی ہوتی۔ دولت جمع کرنے سے محرومی، فلسطینیوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور جنگ چھیڑنے کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔
(IV)یہودیوں کے علاوہ کسی دوسری نسل میں نبی کی پیدائش۔
یہودیوں کا دائمی عقیدہ یہ تھا کہ آخری نبی کا نزول صرف یہودیوں میں ہو گا اور ان کے نزدیک یہودیوں کے علاوہ کوئی نسل اس قد کا آدمی پیدا نہیں کر سکتی تھی جسے خدا اپنا رسول چن لے۔ تاہم یہودیوں کا یہ تصور اس وقت زمین بوس ہو گیا جب محمد کو نبی کے طور پر چنا گیا اور ان کے یہودی ہونے کا کوئی نشان نہیں ملا۔
حضرت یعقوب اور ابراہیم علیھما ا لسلام کی اولاد ہونے اور خدا کے برگزیدہ بندے ہونے کے ناطے یہودیوں کا پختہ یقین اس بات پر تھا کہ انسانیت کی قیادت کا اعزاز صرف انہیں حاصل ہے، اس لیے نبوت انکی نسل کے سوا کسی کو عطا نہیں کی جا سکتی.
یہودیوں کے لیے یہ ایک بار پھر مسلمان اور صرف اسلام ہی تھا جس نے انہیں اس مقام اور مرتبے سے محروم کر دیا جس سے وہ قدیم زمانے سے فیضیاب ہوتے آرہے تھے۔
- (V)قرآن کے ذریعے یہودیوں کے جرائم کو بے نقاب کرنا اور انہیں انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دینا۔
جو کچھ یہودیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں نے چھپا رکھا تھا اس سے قرآن نے پردہ اٹھایا
۔ سورہ عمران کی آیات ۲۱_۲۲… روح المعانی میں آیت کی تفسیر کچھ اس طرح کی گئ؛ ابن ابی حاتم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل نے ایک وقت میں تینتالیس انبیاء کو قتل کیا اور ایک سو ستر متقی لوگوں کو صرف اس لۓ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ وہ ان سے انصاف کا مطالبہ کرنے اٹھ کھڑے تھے۔ (بیان القرآن)
یہودیوں کے فریب کے واقعات مورخین نے قلم زد کیے ہیں۔ یہودیوں کے تمام ناقابل فراموش اور ناقابل معافی جرم میں سے ایک پیغمبر اسلام کے قتل پر آمادگی اور اسکی سازش تھی، اگرچہ محمد اس سازش سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن یہودیوں کے لیے گلے کی ہڈی بن اور نتیجتاً انہیں ان کے پیدائشی شہر سے نکلنا پڑا
مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی دشمنی قرآن کی ان آیات کو دیکھ کر بھی بڑھ جاتی ہے جن میں انہیں مسلسل ظلم و ستم کا شکار نسل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اس سچائی کو سورہ اعراف کی دو آیات (۱۶۷ اور ۱۶۸) سے پرکھا جا سکتا ہے جن میں بنی اسرائیل کو دی جانے والی دو سزاؤں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اول: "اللہ تعالیٰ قیامت تک ایسے افراد یا گروہوں کو بھیجتا رہے گا جن کے ہاتھوں یہودی عذاب اور رسوائی کا باعث بنیں گے"۔
دوسری سزا کا تذکرہ آیت ۱۶۸ میں کیا گیا ہے۔ یعنی ''یہودی آبادی دنیا کے تمام حصوں میں بکھری ہوئ ہوگی‘‘اور وہ اپنے آپ کو ایک مضبوط قوم میں جمع نہ کر سکے گی۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان لمبی چلنے والی جنگ جیسا کہ یہود سوچتے ہیں، اسلام اور قرآن کی طرف سے ملنے والی توہین کا نتیجہ ہے اور یہ جنگ یقینی طور پر یہودیوں کی بالادستی کو بحال کرنے، قدیم زمانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی اشرافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ، اور یہ جنگ بالآخر اس سرزمین پر واپس جانے کی ہے جہاں سے وہ نکالے گئے تھے. اس جنگ کے وہ دور رس نتائج ہوگے جو دنیا ابھی تک دیکھنے سے قاصر رہی ہے ۔